(زبور 23: 6) "یقیناً بھلائی اور رحمت عُمر بھر میرے ساتھ ساتھ رہیں گی اور میں ہمیشہ خُداوند کے گھر میں سکونت کروں گا"

"Surely your goodness and love will follow me all the day of my life, and I will dwell in the house of the Lord forever." (Psalm 23:6)

سبق نمبر ایک


اِنسان گنہگار ہے


خُداوندِ کریم کے عظیم نام سے آغاز کرتا ہو جو نہایت ہی مہربان اور رحیم ہیں۔ وُہ خالقِ ارض و سما اور تمام سجدوں اور تعریف کے لائق ہیں اور اُن کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں ہے۔خُداوند کا کوئی شریک نہیں ۔ وُہی اِنسان کو بدی سے بچاتے اور صِراطِ مستقیم پر لے چلتے ہیں۔خُداوندِ قدوس کی تعریف ابدالآباد ہوتی رہے۔ آمین

اِنسان کے ذہن میں صدیوں سے یہ سوالات اُبھرتے چلے آ رہے ہیں کہ میرے وجود میں لائے جانے کا مقصد کیا ہے؟ میری اصل حقیقت کیا ہے، میں کون ہوں اور میری منزل کیا ہے میں کس طرف جا رہا ہوں؟ ہو سکتاہے کہ آپ کے ذہن میں بھی ایسے سوالات ہوں اور شاید جوابات نہ مل پائے ہوں اور اگر جوابات جاننے کیلئے ذہن پر دبائو ڈالا بھی ہو تو مایوس و پریشان ہو گئے ہوں۔یوں تحقیق کی شدتِ پیاس اور بڑھتی گئی ہو اور آپ یہ کورسز کرنے کیلئے تیار ہو گئے ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ بالکل صحیح مقام پر ہیں۔آئیں ہم خُدا کے کلام سے اِن سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کریں اور ہر طرح کے تعّصب کی عینک اُتار کر اِن اسباق کا مطالعہ کرنا شروع کریں۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِنسان بذاتِ خود اور اُس کا علم محدُود ہے اور اِس محدُود علم سے ذاتِ لا محدُود کو سمجھ نہیں سکتا۔ یہ بات سچ ہے کہ جہاں اِنسانی علم و حکمت جواب دے جاتے ہیں وہاں سے ذاتِ اِلٰہی کے عرفان کا آغاز ہوتا ہے۔یہی سبب ہے کہ مخلوق ہونے کے سبب سے ہم اَپنے خُدائے خالق کے بارے میں پورے طور پر جان نہیں سکتے۔خُدانے ہم پر اَپنے بارے میں اُتنا ہی ظاہر کیا جتنا ہمیں جاننے کی ضرورت ہے اور جو ہمارے لیئے جاننا ضروری نہیں ، خُداوند نے وُہ ہم پر ظاہر بھی نہیں کیا۔

خُداوند رُوح ہیں اور ہم اُنہیں دیکھ نہیں سکتے۔اُنہیں صرف ایمان کی نگاہ سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔خُدا وند ہر دور میں اور ہر مقام میں موجود رہے۔ اُن کی ذات میں کوئی مکر نہیں اور نہ ہی بات کر کے بدلتے ہیں۔وُہ صادق القول خُدا ہیں لیکن اِس کے باوجود اِنسانی ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے کہ جب میں خُدا کو دیکھ نہیں سکتا تو پھر اقرار کیسے کروں۔

عزیز طالبِ علم! اِس کائنات پر نگاہ دوڑا نے سے آپ جان جائیں گے کہ تخلیق کی ہر ایک چیز وجودِ خُداوندی کا اقرار کرتی اور شہادت پیش کرتی ہے کہ اِس نظامِ کائنات کے چلانے کے پیچھے کوئی ہستی ضرور ہے۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ تخلیق کے پیچھے ایک خالق ہے اور ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیز اِس بات کا ثبوت پیش کرتی ہے کہ اِس کے پیچھے کوئی خالق ہے۔وُہی ارفع و اعلیٰ ہستی خداوند خُدا ہیں اور جس چیز کے ہونے کیلئے فرما دیتے ہیں وُہ ہو جاتی ہے۔

خُدا نے ارض و سما کی بنیاد ڈالنے کے بعد زمین کی خاک سے اِنسان کو بنایا اور اُس میں زندگی کا دَم پھونک کر جیتی جان کیا ۔اُس کا نام آدم ؔرَکھا اور پھر اُس پر گہری نیند بھیج کر آدم کی پسلیوں میں سے ایک کو نکال کر آدمؔ کے ساتھی حوا کو بنایا۔اُس وَقت اِنسان کامل، بے عیب اور بے گناہ تھا اور ایسا پاک جیسا کہ خداوند پاک ہیں۔ اِنسان باغ، عدن یعنی جنتِ ارضی میں کام خُدا کی حضوری میں اور کامل ماحول میں کامل زِندگی گزار رہا تھا۔خُداوند خُدا نے اِنسان کو اِس دھرتی پر اختیار بخشا اور یوں اِنسان اِس دھرتی پر خُدا کا نائب یا خلیفہ بن گیا۔مقصد یہ تھا کہ اِنسان کا زمین پر راج ہو اور صرف اور صرف پروردِگار کی حمد و تعریف کرتا رہے۔اِس کامل ماحول میں رہنے کیلئے خُدا نے اِنسان کو کُچھ ہدایات بھی دیں کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل بلا روک ٹوک کے کھا سکتا ہے لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہیں کھانا کیونکہ جس دِن تُو نے اُس میں سے کھایا سو تُو مرا۔موت کے معنی جُدائی کے ہیں خواہ وُہ خالق و مخلوق کی ہو یا جسم و رُوح کی ہو۔

یہاں پر لفظ مرا یا موت سے مراد صرف رُوح اورجسم کا جُدا ہوجانا، نبض کا کام نہ کرنا اور دِل کی دھڑکنوں کا بند ہو جانا ہی نہیں بلکہ انسان کی اَپنے خالق سے بھی جُدائی مراد ہے۔کیا کبھی آپ نے سُنا کہ مشرقی معاشرے میں بعض اوقات والدین اَپنی اِنتہائی نافرمان اولاد کو حتمی طور پر یہی کہتے ہیں کہ آج کے بعد تُو ہمارے لیے مر گیا اور ہم تمہارے لیئے مر گئے؟اِس سے مراد جسم و رُوح میں جُدائی نہیں بلکہ رِشتوں میں جُدا ئی کی بات ہو رہی ہوتی ہے کہ اَب نہ تو ہمارا تُجھ سے اور نہ ہی تمہارا ہم سے کوئی تعلق ہے۔اِس روحانی موت کی سزا ہمیشہ کیلئے گندھک اور آگ سے جلنے والی جھیل میں پڑا رہناہے۔

تصورِ گناہ نہ ہونے کے سبب سے آدم و حوا بن پوشاک کے تھے لیکن شرماتے نہیں تھے ۔کیونکہ ابھی تک گناہ اُن کی زِندگی میں نہیں آیا تھا۔ خُداوند خُدا کیساتھ اچھے تعلق کی وجہ سے وُہ بڑی خوشحال زِندگی بسر کرتے تھے۔لیکن ایک دِن ابلیس نے بی بی حوا کو بہکایا اور کہا کہ تم نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھانے سے ہر گز نہ مرو گے بلکہ خُدا کی مانند صاحبِ حکمت ہو جائو گے۔چنانچہ حوا نے ابلیس کی بات مان کر خُداوندِ قدوس کی نافرمانی کر دی اور وُہ پھل نہ صرف خود کھا لیا بلکہ اَپنے ساتھی آدم کو بھی دیا جس کے کھانے سے خُدا نے اُنہیں منع فرمایا تھا۔گناہ کے وجود میں آنے کے سبب سے اُنہیں معلوم ہوا کہ ہم ننگے ہیں اور شجرِ انجیر کے پتوں سے اَپنے تن کو ڈھانپنے کی کوشش کی جو عارضی اور جلد ختم ہو جانے والی پوشاک تھی۔

جب اُس جنتِ اَرضی میں آدم و حوا نے خداوند خُدا کی آواز سُنی تو وُہ اَپنے آپ کو چھپانے لگے چنانچہ خُدا نے اُن سے یہ سوال کیا کہ آدم تم کہاں ہو؟حضرتِ آدم نے جواب دیا کہ میں نے آپ کی آواز سُنی اور اَپنے آپ کو چھپانے لگا کیونکہ میں ننگا تھا۔خُداوند خُدا نے پھر پوچھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ تم نے وُہ پھل کھا لیا جس کے کھانے سے میں نے تمہیں منع کیا تھا؟چنانچہ حضرتِ آدم نے حضرتِ حوا پر الزام لگایا کہ اُس نے مجھے دیا تو میں نے کھایا اور جب حوا سے یہی سوال پوچھا گیا تو اُس نے ابلیس پر الزام لگایا کہ اُس نے دیا تو ہم نے کھایا۔حقیقت تو یہ ہے کہ آج بھی اِنسان اَپنا گناہ تسلیم کرنے کے بجائے دوسروں پر الزام لگاتا ہے ۔اِنشااللہ خان نے کیا ہی خوب کہا

ہنسی آتی ہے مجھے اِس حضرتِ انسان پر
فعلِ بد تو خود کرے لعنت کرے شیطان پر

اِس دَھرتی پر ہونے والا یہ سب سے پہلا گناہ تھا اور پھر خُداوند خُدا نے اُنہیں چمڑے کے کُرتے پہنا کر باغِ عدن یعنی جنتِ اَرضی اور اَپنی حضوری سے خارج کر دیا۔اَب وُہ خُداوند خُدا کی حضوری میں رہنے کے حق سے محروم ہو گئے۔ اِس کاسبب خُدا کی بات کے ماننے کے بجائے ابلیس کی بات ماننا تھا اور خُدا نے اُنہیں اِس خطرے سے بھی آگاہ کیا تھا اور ایسا کرنے سے منع بھی کیا تھا۔المیہ یہ ہے کہ خُدا اور اِنسان کے بیچ میں جو رشتہ تھا وُہ ٹوٹ گیا او ر اِس کے نتیجہ میں اِنسان نے خُدا سے دُوری، بیماری، دُکھ و تکالیف، کشت و خون اور موت کو گلے لگایا۔

اِنسان کی نافرمانی پر خُداوند خُدا نارض تو ہوئے لیکن پھر بھی اُن کی محبت جوش میں آتی ہے اور جیسا اُوپر بیان کیا جا چُکا ہے کہ ایک تو آدم و حواکو چمڑے کے کُرتے پہنا کر اُنہیں باگِ عدن سے باہر نکال دیا گیا بلکہ اُن سے وعدہ بھی کیا کہ وُہ عورت کی نسل سے ایک ایسی ہستی کو بھیجیں گے جو ابلیس کے سر کو ضربِ کاری لگا کر کُچل ڈالے گی۔یوں خُدا نے اِنسان سے اَپنی محبت کا اِظہار کیا۔ خُداوند خُدا نہیں چاہتے تھے کہ اِنسان برگشتہ ہو یہی سبب ہے کہ اِنسان کو پہلے والے مقام پر بحال کرنے اور اُس کی معافی کیلئے اِنتظام کرنے کا منصوبہ خُداوند خُدا نے بنایا۔وُہ منصوبہ کیا ہے؟ ہم قدم بہ قدم اَگلے اسباق میں اِس منصوبے سے متعلق سیکھیں گے۔

فی الحال ہم نے اِس سبق میں سے سیکھا کہ انسان کیسے وجود میں آیااور اِس کے بنائے جانے کا مقصد کیا تھا اور کیا نہیں تھا۔اِنسان نے کیا کیا اور اِس کے نتیجہ میں کیا ہوا اور پھر خُداوند خُدا نے اَپنی محبت میں اِس برگشتہ اِنسان کو واپس اُس کھوئے ہوئے مقام پر بحال کرنے کیلئے کیا کیا۔اِس سلسلے کے اگلے سبق میں ہم مزید سیکھیں گے۔ میری دُعا ہے کہ خُداوند خُدا اِن حقائق کے سمجھنے کا ہمیں فضل عنایت فرمائیں اور آپ خُداوند خُدا کی پناہ میں رہیں۔ آمین۔